غزل اپنی روایت ہے غزل تہذیب سے ہوگی
کسی کی حسن آرائی کسی تقریب سے ہوگی
بہم ہیں بجلیاں آتش شرارے نو بہ نو طوفاں
مرے خرمن کی بربادی بڑی ترکیب سے ہوگی
عجب طرز تغافل ہے دکھا کر آگ اس دل کو
وہ فرماتے ہیں یہ آتش زنی تخریب سے ہوگی
کف صیاد دام خوش نما زنجیر و زنداں تک
اسیری عمر کی ہوگی مگر ترتیب سے ہوگی
تقاضائے محبت ہے کہ تزئین گلستاں ہو
جو دست غیر سے ہوگی نہ کچھ تنصیب سے ہوگی
مری دیوانگی پر وہ پشیماں ہو گئے ہوں گے
انہیں بھی تو پریشانی کسی تعجیب سے ہوگی
محبت میں کسی پردہ نشیں سے گفتگو یارو
کبھی رمز و کنائے سے کبھی تشبیب سے ہوگی

غزل
غزل اپنی روایت ہے غزل تہذیب سے ہوگی
محمد خالد