پڑے ہوئے ہیں مرے جسم و جاں مرے پیچھے
ہے ایک لشکر غارت گراں مرے پیچھے
پس وفات یہ بے دستخط مری تحریر
نہیں ہے اور کوئی بھی نشاں مرے پیچھے
مرے ملازم و خرگاہ اسپ اور شطرنج
سب آئیں نظم سے ماتم کناں مرے پیچھے
گزر رہی ہے اندھیرے میں اس بدن پر کیا
نہ کھل سکے گی یہی چیستاں مرے پیچھے
اٹھی ہوئی مرے سر پر ازل سے ہے تلوار
کھنچی ہوئی ہے ابد سے کماں مرے پیچھے
گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعاقب میں
زمین آگے ہے اور آسماں مرے پیچھے
غزل
پڑے ہوئے ہیں مرے جسم و جاں مرے پیچھے
محمد اظہار الحق