EN हिंदी
ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا | شیح شیری
tere samne to samajh raha tha ki phul tha

غزل

ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا

محمد اظہار الحق

;

ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا
تجھے کیا خبر کہ یہ آئنا تھا کہ پھول تھا

ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا
ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا

ترا حسن سحر تھا ممکنات کی حد نہ تھی
کف دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا

وہ کمال رخ تھا کرن تھی اس پہ کلی بھی تھی
جو گلے ملا سر شب دیا تھا کہ پھول تھا

یہ چمن بہشت کے تھے کہ ماں کا وجود تھا
یہ دعا کا ہاتھ مہک اٹھا تھا کہ پھول تھا