ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا
تجھے کیا خبر کہ یہ آئنا تھا کہ پھول تھا
ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا
ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا
ترا حسن سحر تھا ممکنات کی حد نہ تھی
کف دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا
وہ کمال رخ تھا کرن تھی اس پہ کلی بھی تھی
جو گلے ملا سر شب دیا تھا کہ پھول تھا
یہ چمن بہشت کے تھے کہ ماں کا وجود تھا
یہ دعا کا ہاتھ مہک اٹھا تھا کہ پھول تھا
غزل
ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا
محمد اظہار الحق