EN हिंदी
عہد جیسے بھی بندھے تھے تیرے میرے درمیاں | شیح شیری
ahd jaise bhi bandhe the tere mere darmiyan

غزل

عہد جیسے بھی بندھے تھے تیرے میرے درمیاں

محمد فخرالحق نوری

;

عہد جیسے بھی بندھے تھے تیرے میرے درمیاں
درد کے رشتے جڑے تھے تیرے میرے درمیاں

غیرممکن تھا فصیلیں فاصلوں کی پھاندنا
قسمتوں کے فیصلے تھے تیرے میرے درمیاں

اک تکلم کا تعلق توڑنے سے کیا ہوا
اور بھی کچھ رابطے تھے تیرے میرے درمیاں

کیا کہوں منزل کی اس کی سمت بھی کوئی نہ تھی
راستے ہی راستے تھے تیرے میرے درمیاں

تیرے دل کا مان ٹوٹے میں نے کب چاہا مگر
اور بھی کچھ دل پڑے تھے تیرے میرے درمیاں

وصل کی سرشاریوں سے جو نہ ہو سکتے تھے حل
ایسے بھی کچھ مسئلے تھے تیرے مرے درمیاں

سامنا تھا اک تو دریائے تلاطم خیز کا
اور کچھ کچے گھڑے تھے تیرے میرے درمیاں

تھا سفر درپیش جانے کتنے نوریؔ سال کا
کیسے کیسے فاصلے تھے تیرے میرے درمیاں