EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دل کا آئینہ ہوا جاتا ہے دھندلا دھندلا
کب ترا عکس اسے اپنی صفائی دے گا

محمد علوی




دن بھر بچوں نے مل کر پتھر پھینکے پھل توڑے
سانجھ ہوئی تو پنچھی مل کر رونے لگے درختوں پر

محمد علوی




دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا

محمد علوی




دونوں کے دل میں خوف تھا میدان جنگ میں
دونوں کا خوف فاصلہ تھا درمیان کا

محمد علوی




فیضؔ صاحب شعر کیوں کہتے نہیں
فیضؔ صاحب شعر کہنا چاہیئے

محمد علوی




گلی میں کوئی گھر اچھا نہیں تھا
مگر کچھ کھڑکیاں اچھی لگی ہیں

محمد علوی




غم بہت دن مفت کی کھاتا رہا
اب اسے دل سے نکالا چاہیئے

محمد علوی