EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کانٹے کی طرح سوکھ کے رہ جاؤ گے علویؔ
چھوڑو یہ غزل گوئی یہ بیماری بری ہے

محمد علوی




کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
نکل کے گھر سے نہ پھر اپنے گھر میں آؤں میں

محمد علوی




کہاں بھٹکتے پھرو گے علویؔ
سڑک سے پوچھو کدھر گئی ہے

محمد علوی




کہیں کھو نہ جائے قیامت کا دن
یہ اچھا سمے ہے ابھی بھیج دے

محمد علوی




کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی
بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں

محمد علوی




کسی سے کوئی تعلق رہا نہ ہو جیسے
کچھ اس طرح سے گزرتے ہوئے زمانے تھے

محمد علوی




کتنا مشکل ہے زندگی کرنا
اور نہ سوچو تو کتنا آساں ہے

محمد علوی