تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا
اور کے دن مرا ہم زاد جدائی دے گا
وہ نہ آئے گا مگر دل یہ کہے جاتا ہے
اس کے آنے کا ابھی شور سنائی دے گا
دل کا آئینہ ہوا جاتا ہے دھندلا دھندلا
کب ترا عکس اسے اپنی صفائی دے گا
خوش تھا میں چہرے پہ آنکھوں کو سجا کر لیکن
کیا خبر تھی مجھے کچھ بھی نہ سجھائی دے گا
اپنے ہی خون میں آلودہ کیے بیٹھا ہوں
کون اس ہاتھ میں اب دست حنائی دے گا
موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے
کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا
بیچنے نکلا ہوں علویؔ مرا دیوان مگر
جانتا ہوں میں کوئی پیسہ نہ پائی دے گا
غزل
تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا
محمد علوی