آیا ہے ایک شخص عجب آن بان کا
نقشہ بدل گیا ہے پرانے مکان کا
تارے سے ٹوٹتے ہیں ابھی تک ادھر ادھر
باقی ہے کچھ نشہ ابھی کل کی اڑان کا
کالک سی جم رہی ہے چمکتی زمین پر
سورج سے جل اٹھا ہے ورق آسمان کا
دریا میں دور دور تلک کشتیاں نہ تھیں
خطرہ نہ تھا ہوا کو کسی بادبان کا
دونوں کے دل میں خوف تھا میدان جنگ میں
دونوں کا خوف فاصلہ تھا درمیان کا
علویؔ کواڑ کھول کے دیکھا تو کچھ نہ تھا
وہ تو قصور تھا مرے وہم و گمان کا
غزل
آیا ہے ایک شخص عجب آن بان کا
محمد علوی