گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں
ہمیں یہ تتلیاں اچھی لگی ہیں
گلی میں کوئی گھر اچھا نہیں تھا
مگر کچھ کھڑکیاں اچھی لگی ہیں
نہا کر بھیگے بالوں کو سکھاتی
چھتوں پر لڑکیاں اچھی لگی ہیں
حنائی ہاتھ دروازے سے باہر
اور اس میں چوڑیاں اچھی لگی ہیں
بچھڑتے وقت ایسا بھی ہوا ہے
کسی کی سسکیاں اچھی لگی ہیں
حسینوں کو لیے بیٹھیں ہیں علویؔ
تبھی تو کرسیاں اچھی لگی ہیں
غزل
گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں
محمد علوی