EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

میاں داد خاں سیاح




طرۂ کاکل پیچاں رخ نورانی پر
چشمۂ آئینہ میں سانپ سا لہراتا ہے

میاں داد خاں سیاح




اب کسی درد کا شکوہ نہ کسی غم کا گلا
میری ہستی نے بڑی دیر میں پایا ہے مجھے

مغیث الدین فریدی




ہے فریدیؔ عجب رنگ بزم جہاں مٹ رہا ہے یہاں فرق سود و زیاں
نور کی بھیک تاروں سے لینے لگا آفتاب اپنی اک اک کرن بیچ کر

مغیث الدین فریدی




ہم نے مانگا تھا سہارا تو ملی اس کی سزا
گھٹتے بڑھتے رہے ہم سایۂ دیوار کے ساتھ

مغیث الدین فریدی




اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں

مغیث الدین فریدی




صرف الفاظ پہ موقوف نہیں لطف سخن
آنکھ خاموش اگر ہے تو زباں کچھ بھی نہیں

مغیث الدین فریدی