کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
طائر دل قفس تن میں جو گھبراتا ہے
زلف مشکیں کا جو اس شوخ کے دھیان آتا ہے
زخم سے سینۂ مجروح کا چر جاتا ہے
ہجر میں موت بھی آئی نہ مجھے سچ ہے مثل
وقت پر کون کسی کے کوئی کام آتا ہے
اب تو اللہ ہے یاران وطن کا حافظ
دشت میں جوش جنوں ہم کو لیے جاتا ہے
ڈوب کر چاہ ذقن سینہ مرا دل نکلا
قد آدم سے سوا آب نظر آتا ہے
مژدہ اے دل کہ مسیحا نے دیا صاف جواب
اب کوئی دم کو لبوں پر مرا دم آتا ہے
تیغ سی چلتی ہے قاتل کی دم جنگ زباں
صلح کا نام جو لیتا ہے تو ہکلاتا ہے
طرۂ کاکل پیچاں رخ نورانی پر
چشمۂ آئینہ میں سانپ سا لہراتا ہے
شوق طوف حرم کوئے صنم کا دن رات
صورت نقش قدم ٹھوکریں کھلواتا ہے
دو بہ دو عاشق شیدا سے وہ ہوگا کیونکر
آئینے میں بھی جو منہ دیکھتے شرماتا ہے
سخت پچھتاتے ہیں ہم دے کے دل اس کو سیاحؔ
اپنی افسوس جوانی پہ ہمیں آتا ہے
غزل
کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
میاں داد خاں سیاح