مفت ہے خون جگر عظمت کردار کے ساتھ
اشک ملتے ہیں یہاں دیدۂ بیدار کے ساتھ
ہم نے مانگا تھا سہارا تو ملی اس کی سزا
گھٹتے بڑھتے رہے ہم سایۂ دیوار کے ساتھ
آج تو حضرت ناصح بھی لپٹ کر مجھ سے
رقص کرتے رہے زنجیر کی جھنکار کے ساتھ
دل برباد پہ ہے سایہ فگن یاد تری
سایۂ فضل خدا جیسے گنہ گار کے ساتھ
دل میں اس شہر کے کچھ عکس ابھی باقی ہیں
لٹ گئے ہم بھی جہاں گرمئ بازار کے ساتھ
ایسی بستی سے تو وہ دشت کہیں بہتر تھا
آبلے مل کے جہاں روتے تھے ہر خار کے ساتھ
اب تو اک خواب سی لگتی ہے حقیقت یہ بھی
ربط تھا ہم کو کسی یار طرح دار کے ساتھ
دل میں میرے بھی یقیں اور گماں ساتھ رہے
جیسے انکار ترے لب پہ ہے اقرار کے ساتھ
ایسے انمول نہ تھے ہم کہ نہ بکتے لیکن
دو قدم چل نہ سکے اپنے خریدار کے ساتھ
حاصل فن ہیں فریدیؔ وہی اشعار غزل
خون دل جن میں ہو رنگینئ افکار کے ساتھ
غزل
مفت ہے خون جگر عظمت کردار کے ساتھ
مغیث الدین فریدی