EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم
بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے

مرزارضا برق ؔ




نہیں بتوں کے تصور سے کوئی دل خالی
خدا نے ان کو دیے ہیں مکان سینوں میں

مرزارضا برق ؔ




پوچھا اگر کسی نے مرا آ کے حال دل
بے اختیار آہ لبوں سے نکل گئی

مرزارضا برق ؔ




عریاں حرارت تپ فرقت سے میں رہا
ہر بار میرے جسم کی پوشاک جل گئی

مرزارضا برق ؔ




چمن میں شب کو گھرا ابر نو بہار رہا
حضور آپ کا کیا کیا نہ انتظار رہا

مرزا شوقؔ  لکھنوی




دیکھ لو ہم کو آج جی بھر کے
کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے

مرزا شوقؔ  لکھنوی




گئے جو عیش کے دن میں شباب کیا کرتا
لگا کے جان کو اپنی عذاب کیا کرتا

مرزا شوقؔ  لکھنوی