EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گیسو رخ پر ہوا سے ہلتے ہیں
چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں

مرزا شوقؔ  لکھنوی




موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

مرزا شوقؔ  لکھنوی




ثابت یہ کر رہا ہوں کہ رحمت شناس ہوں
ہر قسم کا گناہ کیے جا رہا ہوں میں

مرزا شوقؔ  لکھنوی




مٹھی سے جس طرح کوئی جگنو نکل پڑے
دیکھا اسے تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے

میثم علی آغا




اے مرے مونس و غم خوار مجھے مرنے دے
بات اب حکم کی تعمیل تک آ پہنچی ہے

مصداق اعظمی




فقط ملنا ملانا کم ہوا ہے
ہماری دوستی ٹوٹی نہیں ہے

مصداق اعظمی




غار والوں کی طرح نکلا ہے وہ کمرے سے آج
اس کو اس دنیا کی تبدیلی کا اندازہ نہیں

مصداق اعظمی