ہم نے تنہا نشینی خریدی تو ہے رونق و شورش انجمن بیچ کر
شمع محراب دل میں جلائی تو ہے آرزوؤں کا اپنی کفن بیچ کر
مطمئن ہیں بہت آج ارباب فن اپنا سرمایۂ فکر و فن بیچ کر
جیسے آئینہ رکھ دے کوئی ماہ وش حلقۂ زلف کا بانکپن بیچ کر
کھو گیا درد ہنگامۂ شہر میں لٹ رہی ہے دکان متاع نظر
اب بھی توفیق اگر ہے تو اہل جنوں بڑھ کے لے لو اسے جان و تن بیچ کر
رت بدلتی رہی رنگ اڑتے رہے کم نظر باغباں کم نظر ہی رہے
اک خیاباں کو سیراب کرتے رہے آبروئے بہار چمن بیچ کر
ہے فریدیؔ عجب رنگ بزم جہاں مٹ رہا ہے یہاں فرق سود و زیاں
نور کی بھیک تاروں سے لینے لگا آفتاب اپنی اک اک کرن بیچ کر
غزل
ہم نے تنہا نشینی خریدی تو ہے رونق و شورش انجمن بیچ کر
مغیث الدین فریدی