ہستی کے ہر اک موڑ پہ آئینہ بنا ہوں
مٹ مٹ کے ابھرتا ہوا نقش کف پا ہوں
وہ دست طلب ہوں جو دعا کو نہیں اٹھتا
جو لب پہ کسی کے نہیں آئی وہ دعا ہوں
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
بستی میں بسیرے کا ارادہ تو نہیں تھا
دیوانہ ہوں صحرا کا پتا بھول گیا ہوں
جاتی ہی نہیں دل سے تری یاد کی خوشبو
میں دور خزاں میں بھی مہکتا ہی رہا ہوں
غزل
ہستی کے ہر اک موڑ پہ آئینہ بنا ہوں
مغیث الدین فریدی