اک تبسم کا بھرم آباد ہونٹوں پر کئے
جی رہے ہیں لوگ اپنی اپنی ویرانی کے ساتھ
مصداق اعظمی
خوش نما منظر بھی سب دھندھلے نظر آتے ہیں یار
جب دلوں میں بھی اتر جاتی ہے صحراؤں کی خاک
مصداق اعظمی
بعد مدت گردش تسبیح سے مسکیںؔ ہمیں
دانۂ تسبیح میں زنار آتا ہے نظر
مسکین شاہ
چھوڑ دیں دیر و حرم کفر اور اسلام کے لوگ
کعبۂ دل میں جو دیکھیں مرے بت خانۂ عشق
مسکین شاہ
دیر سے کعبہ گئے کعبہ سے معبدگاہ میں
خاک بھی پایا نہیں دیر و حرم کی راہ میں
مسکین شاہ
خفا بھی ہو کے جو دیکھے تو سر نثار کروں
اگر نہ دیکھے تو پھر بھی ہے اک سلام سے کام
مسکین شاہ
راہ سے دیر و حرم کی ہے جو کوئے یار میں
ہے وہی دیں دار گر کفار آتا ہے نظر
مسکین شاہ

