دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی
آئی ہوئی بلا مرے سر پر سے ٹل گئی
پوچھا اگر کسی نے مرا آ کے حال دل
بے اختیار آہ لبوں سے نکل گئی
عریاں حرارت تپ فرقت سے میں رہا
ہر بار میرے جسم کی پوشاک جل گئی
کیفیت بہار جو یاد آئی زیر خاک
داغ جنوں سے اپنی طبیعت بہل گئی
اس کے دہان تنگ کی تنگی نہ پوچھئے
اعجاز سمجھے بات جو منہ سے نکل گئی
فرقت میں ہم بغل جو ہوا برقؔ گور سے
حسرت وصال یار کی دل سے نکل گئی
غزل
دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی
مرزارضا برق ؔ