وہ شاہ حسن جو بے مثل ہے حسینوں میں
کبھی فقیر بھی تھا ان کے ہم نشینوں میں
اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں
نہ اختلاط نہ وہ آنکھ ہے نہ وہ چتون
یہ کیا سبب کہ پڑا فرق سب قرینوں میں
نہیں بتوں کے تصور سے کوئی دل خالی
خدا نے ان کو دئیے ہیں مکان سینوں میں
مآل کار وہی سب کا ہے وہی آغاز
ہزار فرق کریں خود پرست دینوں میں
عبث حریص ہوس سے ذلیل ہوتے ہیں
امٹ ہے برقؔ جو تحریر ہے جبینوں میں
غزل
وہ شاہ حسن جو بے مثل ہے حسینوں میں
مرزارضا برق ؔ