یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ
یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں
مرزا محمد تقی ہوسؔ
زاہد کا دل نہ خاطر مے خوار توڑیئے
سو بار تو یہ کیجیے سو بار توڑیئے
مرزا محمد تقی ہوسؔ
بتوں کو چاہ کے ہم تو عذاب ہی میں رہے
شب فراق کٹی روز انتظار آیا
مرزا رحیم الدین حیا
انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا
مرزارضا برق ؔ
اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں
مرزارضا برق ؔ
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
مرزارضا برق ؔ
اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا
مرزارضا برق ؔ

