EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ
یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں

مرزا محمد تقی ہوسؔ




زاہد کا دل نہ خاطر مے خوار توڑیئے
سو بار تو یہ کیجیے سو بار توڑیئے

مرزا محمد تقی ہوسؔ




بتوں کو چاہ کے ہم تو عذاب ہی میں رہے
شب فراق کٹی روز انتظار آیا

مرزا رحیم الدین حیا




انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا

مرزارضا برق ؔ




اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں

مرزارضا برق ؔ




اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

مرزارضا برق ؔ




اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا

مرزارضا برق ؔ