گماں نہ کیونکہ کروں تجھ پہ دل چرانے کا
جھکا کے آنکھ سبب کیا ہے مسکرانے کا
ممنونؔ نظام الدین
کل وصل میں بھی نیند نہ آئی تمام شب
ایک ایک بات پر تھی لڑائی تمام شب
ممنونؔ نظام الدین
خواب میں بوسہ لیا تھا رات بلب نازکی
صبح دم دیکھا تو اس کے ہونٹھ پہ بتخالہ تھا
ممنونؔ نظام الدین
کوئی ہمدرد نہ ہمدم نہ یگانہ اپنا
روبرو کس کے کہیں ہم یہ فسانا اپنا
ممنونؔ نظام الدین
نہ کی غمزہ نے جلادی نہ ان آنکھوں نے سفاکی
جسے کہتے ہیں دل اپنا وہی قاتل ہوا جاں کا
ممنونؔ نظام الدین
تجھے نقش ہستی مٹایا تو دیکھا
جو پردہ تھا حائل اٹھایا تو دیکھا
ممنونؔ نظام الدین
آخر ہم کو بے زاری تک لے آئی
ہر شے پر گرویدہ رہنے کی عادت
منیش شکلا

