کل وصل میں بھی نیند نہ آئی تمام شب
ایک ایک بات پر تھی لڑائی تمام شب
یہ بھی ہے ظلم تو کہ اسے وصل میں رہا
ذکر طلوع صبح جدائی تمام شب
کس بے ادب کو عرض ہوس ہر نگہ میں تھی
آنکھ اس نے بزم میں نہ اٹھائی تمام شب
یاں التماس شوق وہاں احتراز ناز
مشکل ہوئی تھی عہدہ برائی تمام شب
کیا سر پہ کوہ کن کے ہوئی بے ستوں سے آج
ممنوںؔ صدائے تیشہ نہ آئی تمام شب
غزل
کل وصل میں بھی نیند نہ آئی تمام شب
ممنونؔ نظام الدین