ہر لمحہ نم دیدہ رہنے کی عادت
لے ڈوبی رنجیدہ رہنے کی عادت
اب اپنا چہرہ بیگانہ لگتا ہے
ہم کو تھی سنجیدہ رہنے کی عادت
آخر ہم کو بے زاری تک لے آئی
ہر شے پر گرویدہ رہنے کی عادت
رفتہ رفتہ عریانی تک آ پہنچے
جن کو تھی پوشیدہ رہنے کی عادت
دکھ جاتے ہیں یوں ہی کچھ رنگیں منظر
اچھی ہے خوابیدہ رہنے کی عادت
ہم حامی ہیں سیدھی سادی باتوں کے
اور اس کو پیچیدہ رہنے کی عادت
آخر کار ورق کے چتھڑے کر دے گی
ہر موسم بوسیدہ رہنے کی عادت
غزل
ہر لمحہ نم دیدہ رہنے کی عادت
منیش شکلا