کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا
جا کے گردوں پہ چمکتا شعلۂ جوالہ تھا
خواب میں بوسہ لیا تھا رات بلب نازکی
صبح دم دیکھا تو اس کے ہونٹھ پہ بتخالہ تھا
واہ ری افسردگی اس خاطر دلگیر کی
اشک کا قطرہ جو ٹپکا چشم سے سو ژالہ تھا
تھی خیال مہ رخاں سے شب بغل لبریز نور
آب سے خالی ولیکن مے بہ رنگ ہالہ تھا
کل برنگ غنچہ تھی کس کو مجال گفتگو
بات جب کرتا تھا منہ میں دل کا یک پرکالہ تھا
بد گمانی سے ڈرا ورنہ لیا تیرا جو نام
دیکھنا بوسہ کی خاطر میں لب دلالہ تھا
غزل
کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا
ممنونؔ نظام الدین