EN हिंदी
کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا | شیح شیری
kha ke kal ho pech-o-tab uTha jo dil se nala tha

غزل

کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا

ممنونؔ نظام الدین

;

کھا کے کل ہو پیچ و تاب اٹھا جو دل سے نالہ تھا
جا کے گردوں پہ چمکتا شعلۂ جوالہ تھا

خواب میں بوسہ لیا تھا رات بلب نازکی
صبح دم دیکھا تو اس کے ہونٹھ پہ بتخالہ تھا

واہ ری افسردگی اس خاطر دلگیر کی
اشک کا قطرہ جو ٹپکا چشم سے سو ژالہ تھا

تھی خیال مہ رخاں سے شب بغل لبریز نور
آب سے خالی ولیکن مے بہ رنگ ہالہ تھا

کل برنگ غنچہ تھی کس کو مجال گفتگو
بات جب کرتا تھا منہ میں دل کا یک پرکالہ تھا

بد گمانی سے ڈرا ورنہ لیا تیرا جو نام
دیکھنا بوسہ کی خاطر میں لب دلالہ تھا