EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت

محمود شام




تم اپنے رنگ نہاؤ تم اپنی موج اڑو
مگر ہماری وفا بھی نگاہ میں رکھنا

محمودہ غازیہ




ابھی سر کا لہو تھمنے نہ پایا
ادھر سے ایک پتھر اور آیا

محشر بدایونی




ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی




ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی

محشر بدایونی




جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا

محشر بدایونی




کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

محشر بدایونی