یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت
محمود شام
تم اپنے رنگ نہاؤ تم اپنی موج اڑو
مگر ہماری وفا بھی نگاہ میں رکھنا
محمودہ غازیہ
ابھی سر کا لہو تھمنے نہ پایا
ادھر سے ایک پتھر اور آیا
محشر بدایونی
ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے
محشر بدایونی
ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی
محشر بدایونی
جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا
محشر بدایونی
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
محشر بدایونی

