مٹی کی عمارت سایہ دے کر مٹی میں ہموار ہوئی
ویرانی سے اب کام ہے اور ویرانی کس کی یار ہوئی
ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی
ڈر ڈر کے قدم یوں رکھتا ہوں خوابوں کے صحرا میں جیسے
یہ ریگ ابھی زنجیر بنی یہ چھاؤں ابھی دیوار ہوئی
چھوتی ہے ذرا جب تن کو ہوا چبھتے ہیں رگوں میں کانٹے سے
سو بار خزاں آئی ہوگی محسوس مگر اس بار ہوئی
اب یہ بھی نہیں ہے بس میں کہ ہم پھولوں کی ڈگر پر لوٹ چلیں
جس راہ گزر پر چلنا ہے وہ راہ گزر تلوار ہوئی
اک غنچہ سحر کے عرصہ میں ایسا بھی تھا جو کہہ گزرا
اس ارض خوش گفتاراں پر تخلیق جرس بیکار ہوئی
ہم ساتھ چلے تھے سورج کے سو اس کا یہ خمیازہ ہے
سورج تو نکل کر دور گیا اب اپنی شام غبار ہوئی
وہ نالے ہیں بے تابی کے چیخ اٹھتا ہے سناٹا بھی
یہ درد کی شب معلوم نہیں کب تک کے لیے بیدار ہوئی
اب تیز ہوا کتنی ہی چلے اب گرم فضا کتنی ہی رہے
سینے کا زخم چراغ بنا دامن کی آگ بہار ہوئی
غزل
مٹی کی عمارت سایہ دے کر مٹی میں ہموار ہوئی
محشر بدایونی