کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے تو شہر والو
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حال مہجوری بتاؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک
وہ سب نکلے کفن بردار میرے
گزرتے جا رہے ہیں دن ہوا سے
رہیں زندہ سلامت یار میرے
دبا جس سے اسی پتھر میں ڈھل کر
بکے چہرے سر بازار میرے
دریچہ کیا کھلا میری غزل کا
ہوائیں لے اڑیں اشعار میرے
غزل
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
محشر بدایونی