مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت
کہ دیکھ لوں تجھے پل بھر مجھے یہی ہے بہت
یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت
کچھ اس خطا کی سزا بھی تو کم نہیں ملتی
غریب شہر کو اک جرم آگہی ہے بہت
کہاں سے لاؤں وہ چہرہ وہ گفتگو وہ ادا
ہزار حسن ہے گلیوں میں، آدمی ہے بہت
کبھی تو مہلت نظارہ نکہت گزراں
لبوں پہ آگ سلگتی ہے تشنگی ہے بہت
کسی نے ہنس کے جو دیکھا تو ہو گئے اس کے
کہ اس زمانے میں اتنی سی بات بھی ہے بہت
غزل
مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت
محمود شام