دل اپنا حریف سیل بلا اب کیا کہیں کتنا ٹوٹ گیا
آج اور تھپیڑے ٹکرائے آج اور کنارا ٹوٹ گیا
پیکار ہی جن کا شیوہ ہو وہ تند ہوائیں کیا سمجھیں
گل زار تو ہم پر تنگ ہوا بازو تو ہمارا ٹوٹ گیا
مٹی سے خواب تراشا تھا سو اس کی یہ تعبیر ملی
اب آدھا گھروندا باقی ہے اور آدھا گھروندا ٹوٹ گیا
گھر بھی وہی گھر والے بھی وہی پر کیا لگے اس ماحول میں جی
دیوار سے رشتہ قائم ہے سائے سے رشتہ ٹوٹ گیا
جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا
کب دیدۂ گل ہوا دامن جو جب چھوڑ گئی گل کو خوشبو
کب آیا شجر کو ہوش نمو جب پتا پتا ٹوٹ گیا
غزل
دل اپنا حریف سیل بلا اب کیا کہیں کتنا ٹوٹ گیا
محشر بدایونی