صورت موج سمندر میں کہاں سے آیا
میں مسافر کی طرح گھر میں کہاں سے آیا
خواہش خود نگری سبز ہوئی کس رت میں
آئینہ دست سکندر میں کہاں سے آیا
سر دریچوں سے نکل آئے صدا سنتے ہی
یہ ہنر تیرے گداگر میں کہاں سے آیا
مرکز گل تھا سو اب خاک نظر آتا ہے
یہ تغیر مرے بستر میں کہاں سے آیا
میری راتیں بھی سیہ دن بھی اندھیرے میرے
رنگ یہ میرے مقدر میں کہاں سے آیا
کس نے کھینچا مری تنہائی کا نقشہ عاصمؔ
دشت اس شہر کے منظر میں کہاں سے آیا
غزل
صورت موج سمندر میں کہاں سے آیا
لیاقت علی عاصم