کئی عکس ماہ تمام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو خواب سے لب بام تھے مجھے کھا گئے
کوئی راکھ تھی جو سلگ رہی تھی ادھر ادھر
وہ جو رنگ سایۂ شام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو آنسوؤں کی زبان تھی مجھے پی گئی
وہ جو بے بسی کے کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو منزلوں کی دعائیں تھیں نہیں لے گئیں
وہ جو راستے کے سلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو بکھرے بکھرے سے لوگ تھے مرے روگ تھے
وہ جو متصل در و بام تھے مجھے کھا گئے
کبھی یہ غلط کبھی وہ غلط کبھی سب غلط
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
غزل
کئی عکس ماہ تمام تھے مجھے کھا گئے
لیاقت علی عاصم