خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے
آ نکل جائیں شب وہم و گماں سے آگے
رنگ پیراہن خاکی کا بدلنے کے لیے
مجھ کو جانا ہے ابھی ریگ رواں سے آگے
اک قدم اور سہی شہر تنفس سے ادھر
اک سفر اور سہی کوچۂ جاں سے آگے
اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے
میں بہت تیز ہواؤں کی گزر گاہ میں ہوں
ایک بستی ہے کہیں میرے مکاں سے آگے
میری آوارگی یوں ہی تو نہیں ہے عاصمؔ
کوئی خوشبو ہے مری عمر رواں سے آگے
غزل
خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے
لیاقت علی عاصم