تو نہ تھا تیری تمنا دیکھنے کی چیز تھی
دل نہ مانا ورنہ دنیا دیکھنے کی چیز تھی
کیا خبر میرے جنوں کو شہر کیوں راس آ گیا
ایسے عالم میں تو صحرا دیکھنے کی چیز تھی
تم کو اے آنکھو کہاں رکھتا میں کنج خواب میں
حسن تھا اور حسن تنہا دیکھنے کی چیز تھی
لمس کی لو میں پگھلتا حجرۂ ذات و صفات
تم بھی ہوتے تو اندھیرا دیکھنے کی چیز تھی
آ گیا میرے مکاں تک اور آ کر رہ گیا
بارشوں کے بعد دریا دیکھنے کی چیز تھی
دھوپ کہتی ہی رہی میں دھوپ ہوں میں دھوپ ہوں
اپنے سائے پر بھروسا دیکھنے کی چیز تھی
شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایا ملے
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
غزل
تو نہ تھا تیری تمنا دیکھنے کی چیز تھی
لیاقت علی عاصم