مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے
تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں
خوشبیر سنگھ شادؔ
نہ جانے کتنی اذیت سے خود گزرتا ہے
یہ زخم تب کہیں جا کر نشاں بناتا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
نئے منظر کے خوابوں سے بھی ڈر لگتا ہے ان کو
پرانے منظروں سے جن کی آنکھیں کٹ چکی ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے
سفر دیوانگی کا عشق کی منزل سے آگے ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
رات میری آنکھوں میں کچھ عجیب چہرے تھے
اور کچھ صدائیں تھیں خامشی کے پیکر میں
خوشبیر سنگھ شادؔ
رفتہ رفتہ سب تصویریں دھندلی ہونے لگتی ہیں
کتنے چہرہ ایک پرانے البم میں مر جاتے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے
بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے
خوشبیر سنگھ شادؔ

