ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سر و ساماں سے رہتے ہیں
ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے
اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مرا
غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ
خوشبیر سنگھ شادؔ
خوشیاں دیتے دیتے اکثر خود غم میں مر جاتے ہیں
ریشم بننے والے کیڑے ریشم میں مر جاتے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا
روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی
خوشبیر سنگھ شادؔ
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
تو مجھ سے عہد گذشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
خوشبیر سنگھ شادؔ

