زندگی میں جو تمہیں خود سے زیادہ تھے عزیز
ان سے ملنے کیا کبھی جاتے ہو قبرستان بھی
خورشید طلب
اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں
کیا کہیں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے
مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
بھنور جب بھی کسی مجبور کشتی کو ڈبوتا ہے
تو اپنی بے بسی پر دور سے ساحل تڑپتا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
چلو اچھا ہوا آخر تمہاری نیند بھی ٹوٹی
چلو اچھا ہوا اب تم بھی خوابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
ایک ہم ہیں کہ پرستش پہ عقیدہ ہی نہیں
اور کچھ لوگ یہاں بن کے خدا بیٹھے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ

