نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے
سفر دیوانگی کا عشق کی منزل سے آگے ہے
مجھے کچھ دیر میں پھر یہ کنارا چھوڑ دینا ہے
میں کشتی ہوں سفر میرا ہر اک ساحل سے آگے ہے
کھڑے ہیں سانس روکے سب تماشہ دیکھنے والے
کہ اب مظلوم بس کچھ ہی قدم قاتل سے آگے ہے
مجھے اب روح تک اک درد سا محسوس ہوتا ہے
تو کیا وسعت مرے احساس کی اس دل سے آگے ہے
مرے اس کار بے مصرف کو کیا سمجھے گی یہ دنیا
مری یہ سعئ لا حاصل ہر اک حاصل سے آگے ہے
یہ اکثر شادؔ رکھتی ہے مجھے خوش رنگ لمحوں سے
مری تنہائی تیری رونق محفل سے آگے ہے
غزل
نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ