بجھا کے مجھ میں مجھے بے کراں بناتا ہے
وہ اک عمل جو شرر کو دھواں بناتا ہے
نہ جانے کتنی اذیت سے خود گزرتا ہے
یہ زخم تب کہیں جا کر نشاں بناتا ہے
میں وہ شجر بھی کہاں جو الجھ کے سورج سے
مسافروں کے لیے سائباں بناتا ہے
تو آسماں سے کوئی بادلوں کی چھت لے آ
برہنہ شاخ پہ کیا آشیاں بناتا ہے
عجب نصیب صدف کا کہ اس کے سینے میں
گہر نہ ہونا اسے رائگاں بناتا ہے
فقط میں رنگ ہی بھرنے کا کام کرتا ہوں
یہ نقش تو کوئی درد نہاں بناتا ہے
نہ سوچ شادؔ شکستہ پروں کے بارے میں
یہی خیال سفر کو گراں بناتا ہے
غزل
بجھا کے مجھ میں مجھے بے کراں بناتا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ