رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے
بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے
ذرا سی بات ہے کب یاد ہوگی ان ہواؤں کو
میں اک پیکر تھا ذروں میں بکھرنے سے ذرا پہلے
میں اشکوں کی طرح اس درد کو بھی ضبط کر لیتا
مجھے آگاہ تو کرتا ابھرنے سے ذرا پہلے
کوئی سورج سے یہ پوچھے کہ کیا محسوس ہوتا ہے
بلندی سے نشیبوں میں اترنے سے ذرا پہلے
کہیں تصویر رسوا کر نہ دے میرے تصور کو
مصور سوچ میں ہے رنگ بھرنے سے ذرا پہلے
سنا ہے وقت کچھ خوش رنگ لمحے لے کے گزرا ہے
مجھے بھی شادؔ کر جاتا گزرنے سے ذرا پہلے
غزل
رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے
خوشبیر سنگھ شادؔ