پرندے بے خبر تھے سب پناہیں کٹ چکی ہیں
سفر سے لوٹ کر دیکھا کہ شاخیں کٹ چکی ہیں
لرز جاتا ہوں اب تو ایک جھونکے سے بھی اکثر
میں وہ خیمہ ہوں جس کی سب طنابیں کٹ چکی ہیں
بہت بے ربط رہنے کا یہ خمیازہ ہے شاید
کہ منزل سامنے ہے اور راہیں کٹ چکی ہیں
ہمیں تنہائی کے موسم کی عادت پڑ چکی ہے
کہ اس موسم میں اب تو کتنی راتیں کٹ چکی ہیں
نئے منظر کے خوابوں سے بھی ڈر لگتا ہے ان کو
پرانے منظروں سے جن کی آنکھیں کٹ چکی ہیں
غزل
پرندے بے خبر تھے سب پناہیں کٹ چکی ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ

