وحشتیں بھی کتنی ہیں آگہی کے پیکر میں
جل رہا ہے سورج بھی روشنی کے پیکر میں
رات میری آنکھوں میں کچھ عجیب چہرے تھے
اور کچھ صدائیں تھیں خامشی کے پیکر میں
ہر طرف سرابوں کے کچھ حسین منظر تھے
اور میں بھی حیراں تھا تشنگی کے پیکر میں
میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا
فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں
روپ رنگ ملتا ہے خد و خال ملتے ہیں
آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں
کیا بتائیں ہم دل پر شادؔ کیا گزرتی ہے
غم چھپانا پڑتا ہے جب خوشی کے پیکر میں
غزل
وحشتیں بھی کتنی ہیں آگہی کے پیکر میں
خوشبیر سنگھ شادؔ