دھواں اڑاتے ہوئے دن کو رات کرتے ہوئے
ملنگ آگ سے تطہیر ذات کرتے ہوئے
کہا تو تھا یہ امانت سنبھال کر رکھنا
ہماری نذر وہ کل کائنات کرتے ہوئے
میں ایک جنگ خود اپنے خلاف لڑتا ہوا
تمام عضو بدن مجھ سے گھات کرتے ہوئے
کہ ہم بنے ہی نہ تھے ایک دوسرے کے لیے
اب اس یقین کو جینا حیات کرتے ہوئے
ہر ایک قید سے آزاد بندشوں سے پرے
حسین لوگ حسیں واردات کرتے ہوئے
اگرچہ کام تھا مشکل مگر مزہ آیا
کشید زہر سے آب حیات کرتے ہوئے

غزل
دھواں اڑاتے ہوئے دن کو رات کرتے ہوئے
خورشید طلب