ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا
گہر جو ہیں تہہ دریا تو سنگ و خشت بھی ہیں
یہ دیکھنا ہے مری دسترس میں آتا ہے کیا
نواح جاں میں جو چلتی ہے کیسی آندھی ہے
دیئے کی لو کی طرح مجھ میں تھرتھراتا ہے کیا
گلے میں نام کی تختی گلاب رکھتے ہیں
چراغ اپنا تعارف کہیں کراتا ہے کیا
نشان قبر بھی چھوڑا نہیں رقابت نے
کسی کو ایسے کوئی خاک میں ملاتا ہے کیا
فنا کے بعد ہی ملتی ہے زندگی کو دوا
طلبؔ یہ رمز تمہاری سمجھ میں آتا ہے کیا
غزل
ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
خورشید طلب