کہاں کسی کا بنایا ہوا بناتے ہیں
نیا بناتے ہیں جب ہم نیا بناتے ہیں
کسی کا نقش بناتے ہیں لوح دل پر ہم
کسی کا عکس سر آئینہ بناتے ہیں
نیا بنانے کی حسرت کبھی نہیں مرتی
نئے سرے سے نئے کو نیا بناتے ہیں
میں اک زمین ہوں امن و اماں کی متلاشی
مرے عزیز مجھے کربلا بناتے ہیں
ہماری دشت نوردی کو گمرہی نہ سمجھ
بھٹکنے والے نیا راستہ بناتے ہیں
کہیں بھی جائیں کسی شہر میں سکونت ہو
ہم اپنی طرز کی آب و ہوا بناتے ہیں
زمینیں تنگ ہوئی جا رہی ہیں دل کی طرح
ہم اب مکان نہیں مقبرہ بناتے ہیں
طلبؔ جو لوگ قناعت پسند ہوتے ہیں
وہ زندگی کو کہاں مسئلہ بناتے ہیں
غزل
کہاں کسی کا بنایا ہوا بناتے ہیں
خورشید طلب