وہ جس نے ڈھال دیا برف کو شرارے میں
میں کب سے سوچ رہا ہوں اسی کے بارے میں
نہ جانے نیند سے کب گھر کے لوگ جاگیں گے
کہ اب تو دھوپ چلی آئی ہے اوسارے میں
میں جاگ جاگ کے شب بھر اسے تلاشتا ہوں
لکھا ہوا ہے مرا نام اک ستارے میں
کھلے گی دھوپ تو وادی کا رنگ نکھرے گا
ابھی تو اوس کی اک دھند ہے نظارے میں
کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں
ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں
طلبؔ یہ سوچ کے لگ جائے نہ زبان میں زنگ
کسی سے بات میں کرتا نہیں اشارے میں

غزل
وہ جس نے ڈھال دیا برف کو شرارے میں
خورشید طلب