EN हिंदी
جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں | شیح شیری
jang se jangal bana jangal se main nikla nahin

غزل

جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں

افضال نوید

;

جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں
ہو گیا اوجھل مگر اوجھل سے میں نکلا نہیں

دعوت‌ افتاد رکھی چھل سے میں نکلا نہیں
نکلے بھی کس بل مگر کس بل سے میں نکلا نہیں

دیکھتے رہنا ترا مسحور چھت پر کر گیا
اس قدر بارش ہوئی جل تھل سے میں نکلا نہیں

جیسے تو ہی تو ہو میری نیند سے لپٹا ہوا
جیسے تیرے خواب کے مخمل سے میں نکلا نہیں

دیکھنے والوں کو شہر خواب سا دکھتا ہوں میں
جیسے تیرے سرمئی بادل سے میں نکلا نہیں

دیکھ سورج آ گیا سر پر مجھے آواز دے
پھول سا اب تک تری کونپل سے میں نکلا نہیں

شب جو ایمن راگ میں ڈوبی سحر تھی بھیروی
تیوری چڑھتی رہی کومل سے میں نکلا نہیں

تیرا پلو ایک جھٹکے سے گیا گو ہاتھ سے
آنچ لپٹی ہے کہ جوں آنچل سے میں نکلا نہیں

اپنے مرکز کی مہک چاروں طرف بکھرائی ہے
پھڑپھڑا کر بھی ترے صندل سے میں نکلا نہیں

طبع کی پیچیدگی شاید مری پہچان ہو
یوں نہ ہو ہو مستقل جس بل سے میں نکلا نہیں

نام لکھا تھا مرا میں نے تو اپنانا ہی تھا
ایک لمحے کے لیے بھی پل سے میں نکلا نہیں

یوں لگا جیسے کبھی میں دہر کا حصہ نہ تھا
بات اتنی ہے کہ باہر کل سے میں نکلا نہیں

حوصلے جیسے ڈبو ڈالے ہیں اس پردیس نے
ریچھ نکلا ندی سے کمبل سے میں نکلا نہیں

میں نے کوئی آتما ان چاہی آنے ہی نہ دی
کیسے کہہ دوں اپنی ہی دلدل سے میں نکلا نہیں

اس کے ہوتے ایک شب روشن ہوا جل پر نویدؔ
چل دیا وہ تو کبھی کا جل سے میں نکلا نہیں