چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی
اب اگر کھولے تو ہم کو قید تنہائی ملی
زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں
تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی
موسم گل کی نئی تقسیم حیراں کر گئی
زخم پھولوں کو ملے کانٹوں کو رعنائی ملی
سطح دریا پر ابھرنے کی تمنا ہی نہیں
عرش پر پہنچے ہوئے ہیں جب سے گہرائی ملی
دوسروں کو سنگ دل کہنا بڑا آسان تھا
خود کو جب دیکھا تو اپنی آنکھ پتھرائی ملی
غزل
چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی
افضل منہاس