EN हिंदी
چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی | شیح شیری
chup rahe to shahr ki hangama aarai mili

غزل

چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی

افضل منہاس

;

چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی
اب اگر کھولے تو ہم کو قید تنہائی ملی

زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں
تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی

موسم گل کی نئی تقسیم حیراں کر گئی
زخم پھولوں کو ملے کانٹوں کو رعنائی ملی

سطح دریا پر ابھرنے کی تمنا ہی نہیں
عرش پر پہنچے ہوئے ہیں جب سے گہرائی ملی

دوسروں کو سنگ دل کہنا بڑا آسان تھا
خود کو جب دیکھا تو اپنی آنکھ پتھرائی ملی