EN हिंदी
پانی شجر پہ پھول بنا دیکھتا رہا | شیح شیری
pani shajar pe phul bana dekhta raha

غزل

پانی شجر پہ پھول بنا دیکھتا رہا

افضال نوید

;

پانی شجر پہ پھول بنا دیکھتا رہا
اور دشت میں ببول بنا دیکھتا رہا

ایام کے غبار سے نکلا تو دیر تک
میں راستوں کو دھول بنا دیکھتا رہا

تو بازوؤں میں بھر کے گلابوں کو سو رہی
میں بھی خزاں کا پھول بنا دیکھتا رہا

کونپل سے ایک لب سے فراموش ہو کے میں
کس گفتگو میں طول بنا دیکھتا رہا

بادہ کشوں کے خوں سے چھلکتا تھا مے کدہ
خمیازۂ ملول بنا دیکھتا رہا

پچھلے کھنڈر سے اگلے کھنڈر تک تھا انتظار
میں آتما کی بھول بنا دیکھتا رہا

نام و نمود ہفت جہت سونپ کر مجھے
سورج دھنک میں دھول بنا دیکھتا رہا

تھا سبزۂ کشیدہ درختوں کے درمیاں
نا قابل قبول بنا دیکھتا رہا

تجسیم نو بہ نو کا کرشمہ تھا اور ہی
میں اپنا سا اصول بنا دیکھتا رہا

لوح و قلم کی خیر سگالی کے واسطے
شیرازۂ نزول بنا دیکھتا رہا

بنتے ہی مٹ گیا تھا خبر ہی نہ ہو سکی
میں نقش کو فضول بنا دیکھتا رہا

چٹکی سے بڑھ کے تھا نہ حجم پھر بھی میں نویدؔ
آمیزے میں حلول بنا دیکھتا رہا