گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں
ہمہ وقت اپنی شبیہ کے ہوں میں روبرو
کوئی اشک ہے کہ یہ آئینہ ہے نگاہ میں
کوئی شہر خواب گزر رہا ہے خیال سے
کوئی دشت شام سلگ رہا ہے نگاہ میں
کف درد سے غم کائنات کی گرد سے
وہی مٹ رہا ہے جو نقش سا ہے نگاہ میں
کوئی تیرگی ہے فرات جاں میں رواں دواں
مگر اک چراغ سا تیرتا ہے نگاہ میں
گئے موسموں کی وہ سبز رنگ حکایتیں
کوئی آب سرخ سے لکھ گیا ہے نگاہ میں
غزل
گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں
آفتاب حسین