قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے
زمین اب بھی کہیں آسماں کی زد میں ہے
ہر ایک گام الجھتا ہوں اپنے آپ سے میں
وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے
وہ بحر ہوں جو خود اپنے کنارے چاٹتا ہے
وہ لہر ہوں کہ جو سیل رواں کی زد میں ہے
میں اپنی ذات پہ اصرار کر رہا ہوں مگر
یقیں کا کھیل مسلسل گماں کی زد میں ہے
مرے وجود کے اندر اترتا جاتا ہے
ہے کوئی زہر جو میری زباں کی زد میں ہے
لگی ہوئی ہے نظر آنے والے منظر پر
مگر یہ دل کہ ابھی رفتگاں کی زد میں ہے
یہی نہیں کہ فقط رزق خواب بند ہوا
گدائے کوئے ہنر بھی سگاں کی زد میں ہے
افق افق جو مرے نور کا غبار اڑا
یہ کائنات مرے خاکداں کی زد میں ہے
غزل
قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے
آفتاب حسین